1998میں پورے صوبہ سندھ سے زیادہ کپاس پیدا کر کے کاٹن کنگ کا اعزاز حاصل کرنے والے ضلع وہاڑی کی 80 فیصد آبادی کا براہ راست انحصار زراعت پر ہے۔
کپاس، گندم، مکئی، کماد اور چاول کا شمار ضلع کی بڑی فصلوں میں ہوتا ہے اس کے علاوہ سبزیاں اور پھل پیدا کرنے میں بھی وہاڑی پنجاب بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہے۔
ضلع وہاڑی کا کل رقبہ 10 لاکھ 80 ہزار 622 ایکڑ ہے جس میں نو لاکھ 78 ہزار 180 ایکڑ قابل کاشت ہے۔
اگر تحصیل کے حساب سے دیکھا جائے تو تحصیل وہاڑی کا کل رقبہ تین لاکھ 50 ہزار 665 ایکڑ ہے جس میں سے تین لاکھ 16 ہزار 151 ایکڑ قابل کاشت ہے۔
تحصیل میلسی کے کل چار لاکھ پانچ ہزار 483 ایکڑ میں سے تین لاکھ 70 ہزار 740 ایکڑ قابل کاشت ہے۔
اسی طرح تحصیل بویوالہ کا کل رقبہ تین لاکھ 24 ہزار 474 ہے جس میں دو لاکھ 84 ہزار 279 قابل کاشت ہے۔
زرعی زمین کی تقسیم:۔
ضلع وہاڑی میں 2010 کی زراعت شماری کے مطابق کھیتوں کی کل تعداد ایک لاکھ 63 ہزار ہے۔
یوں ضلع کے ہر تیسرے گھرانے (38 فیصد) کو کاشت کاری کیلیۓ کچھ زمین دستیاب ہے۔
ضلع کے کاشت کار گھرانوں میں سے 69 فیصد چھوٹے کسان ہیں جن میں سے ہر ایک کے زیر کاشت اوسطا صرف دو ایکڑ زمین ہے۔
چھوٹے کسانوں کے اس گروپ کے زیر کاشت زمین ضلع کے کل زرعی رقبے کا 31 فیصد ہے۔
ضلع کی آدھی سے زائد (54 فیصد) زرعی زمین درمیانے درجے کے کسانوں کے پاس ہے جن کی تعداد کل کسانوں کا 29 فیصد بنتی ہے۔
ان میں سے ہر ایک کے زیر کاشت رقبہ اوسطا ساڑھے آٹھ ایکڑ بنتا ہے۔
ضلع کے بڑے زمیندار تعداد میں تو تمام کاشت کاروں کا صرف دو فیصد ہیں لیکن یہاں زمین کا 15 فیصد حصہ ان کے پاس ہے۔ ان میں سے ہر کھیت کا اوسط رقبہ 38 ایکڑ کے قریب ہے۔
کپاس:۔
جنوبی پنجاب کے کاٹن بیلٹ کے تیرہ اضلاع میں وہاڑی بھی شامل ہے۔ ماہرین کے مطابق دنیا کی بہترین قسم مصری کپاس کو کہا جاتا ہے اور وہاڑی میں پیدا ہونے والی کپاس اس سے ملتی جلتی ہے۔
رواں سال کپاس کی کاشت کا ضلع میں حدف پانچ لاکھ پانچ ہزار ایکڑ تھا جب کہ پانچ لاکھ 15 ہزار 282 ایکڑ اراضی پر کپاس کاشت کی گئی۔
گزشتہ سال اتنے ہی حدف کے مقابلے میں صرف تین لاکھ ایکڑ کاشت ہوئی تھی جس کی بڑی وجہ 2015 میں موسمی حالات اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے فصل کی تباہی تھی اور اوسط پیداوار 23 من فی ایکڑ رہی تھی۔
کاٹن ریسرچ سنٹر کے انچارج ڈاکٹر غلام سرور کے مطابق رواں سال وہاڑی میں ریکارڈ کپاس کی پیداوار کی توقع ہے لیکن گزشتہ دس سال سے ضلع میں کاشت بتدریج کم ہوئی ہے جس کی وجہ زمین میں نامیاتی مادوں کی کمی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ چند دہائیاں قبل زمین کو ایک سیزن کے لیے خالی رکھا جاتا تھا اور قدرتی کھاد کا زیادہ استعمال کیا جاتا تھا لیکن اب ایک ایکڑ بھی خالی نہیں چھوڑا جاتا جس سے وہاڑی کی زمین میں نامیاتی مادوں کی مقدار 2 فیصد سے کم ہو کر صفر اعشاریہ پانچ فیصد رہ گئی ہے۔
گندم:۔
ضلع وہاڑی میں گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار 36 من ہے۔ گندم کی کاشت نومبر میں کی جاتی ہے جو مئی تک تیار ہو جاتی ہے۔
گزشتہ سال وہاڑی میں چھ لاکھ 71 ہزار چھ سو ایکڑ گندم کاشت کی گئی جب کہ رواں سال چھ لاکھ71 ہزار ایکڑ اراضی پر کاشت کی گئی۔
ایک اندازے کے مطابق وہاڑی اپنی ضرورت سے زیادہ گندم کاشت کر رہا ہے جس کی وجہ سے اس کی فروخت میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ حکومت کی جانب سے گندم کی بجائے دیگر فصلوں کی کاشت کے متعلق رجحان پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے تا کہ زیادہ منافع بخش پیداوار کی جا سکے۔
چاول:۔
چاول بھی وہاڑی میں کاشت ہونے والی بڑی فصلوں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں پیدا ہونے والا چاول پنجاب بھر میں نمایاں مقام رکھتا ہیں۔
گزشتہ سال وہاڑی میں 74 ہزار 968 ایکڑ اراضی پر چاول کاشت کیا گیا تھا جس کی اوسط پیداوار 20 اعشاریہ 25 من فی ایکڑ رہی۔ رواں سال بھی چاول کی کاشت جاری ہے۔
ماہرین کے مطابق وہاڑی جیسے کم پانی والے علاقے میں چاول کی کاشت آئندہ چند سالوں میں پانی کا قحط پیدا کر سکتی ہے اس لیے محکمہ کی جانب سے متبادل فصلوں کی کاشت بارے آگاہی جاری ہے۔
مکئی:۔
مکئی کا شمار بھی وہاڑی کی نقد آور فصلوں میں ہوتا ہے جو بڑے پیمانے پر کاشت کی جاتی ہیں۔
مکئی سال میں دو مرتبہ کاشت کی جاتی ہے فروری سے مئی تک کی فصل کو بہاریہ جب کہ جولائی سے نومبر تک کی فصل کو موسمی کاشت کہا جاتا ہے۔
مکئی ربیع یا خریف کی کاشت کی بجائے اپنا الگ شیڈول رکھتی ہے۔ گزشتہ سال وہاڑی میں 54 ہزار 323 ایکڑ جب کہ رواں سال 31 ہزار 133 ایکڑ مکئی کاشت کی گئی جب کہ فی من پیداوار 80 من فی ایکڑ رہی۔ اس سال کم کاشت کی وجہ کپاس کی فصل کی زیادہ کاشت ہے۔
گنا:۔
گنے کی کاشت بھی دو مرتبہ ہوتی ہے ستمبر میں کی جانے والی کاشت ڈیڑھ سال جب کہ فروری میں ہونے والی کاشت ایک سال تک چلتی ہے۔ اس سیزن میں 34 ہزار آٹھ سو پندرہ جب کہ گزشتہ سال 46 ہزار 815 ایکڑ اراضی پر گنا کاشت کیا گیا اور فی ایکڑ پیداوار 650 من فی ایکڑ رہی۔
دیگر فصلوں میں چری، سرسوں، برسیم، لوسن، دال ماش، دال مونگ، چنا اور سورج مکھی شامل ہیں۔
ریسرچ فارمز:۔
وہاڑی میں محکمہ اڈاپٹو ریسرچ کے 37 ایکڑ، ریڈک 9ایکڑ، زرعی یونیورسٹی 47 ایکڑ، جب کہ محکمہ زراعت توسیع کے پاس ساڑھے چار سو ایکڑ اراضی موجود ہے جہاں مختلف فصلوں کے متعلق کسانوں کو درپیش مسائل کے حل اور نئی اقسام کے بیج حاصل کرنے پر ریسرچ کی جاتی ہے۔
باغات:-
وہاڑی میں کینو، آم، امرود اور فالسہ کے باغات بھی موجود ہیں۔ ضلع میں تیار ہونے والا آم اور کنو ناصرف پاکستان کے مختلف شہروں میں بھیجا جاتا ہے بلکہ بیرون ممالک ایکسپورٹ بھی کیا جاتا ہے۔
ضلع میں تین ہزار 299 ایکڑ پر آم، پانچ ہزار 70 ایکڑ پر کنو، 814 ایکڑ پر امرود، 228 ایکڑ پر فالسہ جب کہ 50 ایکڑ پر انگور کے باغات لگے ہوئے ہیں۔
ٹنل فارمنگ کے ذریعے وہاڑی میں مختلف سبزیوں کی پیداوار میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پاکستان کسان اتحاد کے ضلعی صدر چودھری افتخار احمد کا کہنا ہے کہ وہاڑی کے کاشتکار مسلسل دس سال سے نامساعد حالات سے لڑ رہے ہیں جہاں بعض اوقات منافع کی بجائے انہیں نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
زراعت کے فروغ میں محکمہ کے کردار کو انہوں نے صفر قرار دیتے ہوئے کہا کہ محکمہ کے افسران پیسٹی سائیڈز کمپنیوں کی پروموشن میں مصروف رہتے ہیں جب کہ فیلڈ ورکر کبھی کبھار ہی منہ دکھاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹنل فارمنگ کے فروغ سے بہتری آ رہی ہے اگر حکومت سپورٹ کرے تو متبادل فصلوں کی کاشت سے کسان کو فائدہ پہنچایا جا سکتا ہے جب کہ فصلوں کو سیراب کرنے کے لیے کھادر اور ٹھینگی کینال اہم ہیں لیکن پانی چوری کی وجہ سے مستحق کاشتکار رہ جاتے ہیں جس پر دھیان دینا محکمہ کی ذمہ داری ہے۔
ڈپٹی ڈائریکٹر زراعت توسیع خالد محمود نے کہا کہ انہیں وہاڑی آئے چند دن ہوئے ہیں فی الحال وہاڑی کی صورتحال بارے کچھ نہیں کہا جا سکتا لیکن ہماری کوشش رہے گی کہ کاشتکاروں کی بہتری کے لیے کام کریں تاکہ زراعت کا فروغ ممکن ہو سکے۔