ثقافت یا تہذیب وہ رسم و رواج اور طور طریقے ہیں جن پرعمل کرنا معاشرہ میں اچھا سمجھا جاتا ھے اور ترک کرنا معاشرہ میں برا سمجھا جاتا ہے . سماج جن ثقافتی پابندیوں اور رجحانات پر تشکیل پاتا ہے ان میں مذھب ، زریعہ معاش ، علاقائی وابسطگی ، غیر مذھبی معاشرتی مقاصد کیلئے عقلی منطق اور سیاسی و دنیاوی غرض پر مبنی نفرت و محبت کی تحریک کارفرما ہے.
میسلی میں تا ریخی پہلو سے تہذیبوں کا ٹکراؤ، قیامِ پاکستان کے وقت علاقائی آبادکاری اورمختلف مذاھب کا اثر لئے مسلمان ، زبانوں اور ثقافتوں کے اثرات سے میلسی کے لوگوں میں رسوم و رواج ، قومیت ، ذات پات ، لسانیت اور ملتان پر حملے کے نتیجہ میں میلسی میں آبادکاری سکھوں کی ملتان میں حکومت اورریاست بھاولپورکے تہذیبی اثرات اور مذھبی تصوراتی اختلافات سے ثقافتی طور پر میلسی کی عوام منقسم چلی آ رھی ھے.
قیام پاکستان کے وقت معاشرہ بہت پسماندہ تھا اگرچہ 53سال کے بعد اب بھی تمدن اور تہذیب کاکوئی انقلاب نہیں آیا۔نصف صدی پہلے غربت اور جہالت کے سبب قصبہ اور تحصیل میلسی کی اکثریت پسماندہ زندگی گزار رہی تھی۔بجلی،علاج معالجہ ،تعلیم،سفراور رہن سہنکی سہولتیں میسر نہ تھیں لوگ کچے مکانات میں رہتے ۔اُمراء کیلئے گھوڑے اور تانگے اہم سواریاں تھیں۔شادی بیاہ میں لوگ بڑی دلچسی اور ذمہ داری کے ساتھ شرکت کرتے ۔ شادی کی تقریبات کئی دن جاری رہتیں۔ اخوت محبت اور دوستی کے پروان کے لیے دوست آپس میں پگڑیاں تبدیل کرتے سالانے میلے لوگوں کی تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے دیوان شیخ چاولی مشائخ (بورے والہ ) ابوبکر وراق(میلسی ) سلطان ایوب قتال (دنیا پور)پیرجیون سلطان (کہڑوڑ پکا ) کے میلے اب بھی عوام کی دلچسپی کے مراکز ہیں ۔
لو گوں کے قریبی روابط اور میل جول کے سبب پنچا یت ایک موثر سماجی قدر رہی ہے۔ زرعی آمدنی اور معاشی ترقی کی بدولت پاکستان بننے کے کچھ عرصے بعد زمینداروں کی حالت سدھرنے لگی اور قصبہ میلسی میں پختہ مکانات کی تعمیر اور شہری سہولتوں کا آغاز ہوا نصف صدی کے تاریخی عمل کے نتیجے میں میلسی شہرا دردرجنوں قصبات و دیہات میں بجلی ، ٹیلی فون ، تعلیم ، اور دوسری شہری سہولتیں پہنچ چکی ہیں ۔ میلسی شہر میں تمدن کے آثار رونما ہوئے ہیں ۔ نقشے کے مطابق پختہ مکانات اور بچوں کے لیے تعلیم کا رواج عام ہو چکا ہے۔ لوگوں میں اب پہلے وقتوں کی طرح شادی و بیاہ پر وافر وقت اور پیسہ خرچ کرنے کی گنجائش نہیں اور زندگی پہلے کے مقابلے میں بہت تیز ہو گئی ہے ۔
اموات کے موقع پر جنازہ ، قل خوانی اور فاتحہ میں شرکت لوگ اپنی اخلاقی ، مذہبی اور معاشرتی ذمہ داری سمجھتے ہیں ۔ مقتدر سیاستدان اپنے اپنے حلقہ نیابت میں نمایاں اور بااثر افراد کی اموات پر اُن کے لواحقین سے بہ التزام تعزیت کرتے ہیں ۔ سیاست میں یہ رسم ایک سیاسی ذمہ داری بن چکی ہے ۔
شہری آبادی میں شلوار قمیض اور پینٹ شرٹ جبکہ دیہات میں پرانے وقتوں کا لباس دھوتی قمیض پسندیدہ ملبوسات ہیں پچاس سال قبل امراء سر پر طرے والی پگڑیاں پہنتے تھے جسکا رواج اب ختم ہو چکا ہے۔
[social icon=”brankic-icon-graduate” link=”#” size=”32″ icon_color=”#1e73be” icon_color_hover=”#ffffff” icon_bg=”circle” icon_bg_color=”#81d742″ icon_bg_hover=”#eeee22″ icon_bd_hover=”#000000″ icon_bd_width=”2″ ]