موسم گرما کا آغاز ہوتے ہی تحصیل میلسی کے فدہ بازار میں موجود فالودے کی مشہور دکانوں میں گاہکوں کا رش بڑھنے لگا ہے۔
تحصیل میلسی میں گرمی کے موسم کی سوغات کا ذکر ہو تو فدہ بازار میں موجود فالودہ فروخت کرنے والوں کا لازمی ذکر ہوتا ہے جہاں سے شہر کے علاوہ دوسرے علاقوں کے لوگ بھی پیاس بجھانے کی خاطر فالودہ کھا کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔
عرصہ 50 سال سے حاجی بابا کے نام سے فالودے کی دکان چلانے والے حق نواز بتاتے ہیں کہ انہوں نے سنہ 1965ء میں دو دکانیں بنائی تھی۔
"میرے والد حاجی بابا محمد امین نے اپنی دوکان کا نام "امین کا فائن فالودہ” رکھا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ وہ صبح آٹھ بجے سے رات 11 بجے تک دکان کھولتے ہیں۔ ان کی دکان میں تین ملازم کام کرتے ہیں۔
گاہکوں کو فالودہ پیش کرنے والے ملازمین کو پانچ سے آٹھ ہزار روپے، گودام میں مال تیار کرنے والے کاریگروں کو 10 سے 13 ہزار روپے تنخواہ دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آج بھی ان کی دکان میں تیار ہونے والے فالودے کا میعار 54 سال پہلے والا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی دکان پر دور دور سے لوگ سارا دن فالودہ کھانے آتے رہتے ہیں۔
"دکان کا ماہانہ کرایہ دو ہزار روپے دیتا ہوں۔”
فالودے کا کام صرف گرمیوں میں چلتا ہے جبکہ سردیوں میں مٹھائی کا کام کرتا ہوں۔”محمد شعبان”
شعبان بتاتے ہیں کہ فالودہ تیار کرنے کے لیے سامان قریبی کریانہ کی دکان سے خریدتے ہیں۔ فالودے کی تیاری میں، ربڑی دودھ بنانے میں تین سے چار گھنٹے لگتے ہیں۔
فالودہ بنانے کے لیے کلف سے سیویاں، دودھ سے ربڑی، فالودے میں مٹھاس بڑھانے کے لیے چینی سے شیرا تیار کر کے اس میں روح افزاء ملایا جاتا ہے تاکہ رنگت کے ساتھ ساتھ اچھی خوشبو اور ذائقہ بن جائے۔
"ہماری روزانہ کی سیل آٹھ سے 15 ہزار روپے ہوتی ہے۔”
فدہ بازار میں عرصہ 25 سال سے بشیر فالودے کے نام سے دکان چلانے والے محمد شعبان کہتے ہیں کہ ان کے والد نے سنہ 1990ء میں دکان بنائی۔
محمد شعبان بتاتے ہیں کہ ان کے والد اب ضعیف ہو گئے ہیں اس لیے وہ گزشتہ پانچ سال سے خود دکان چلا رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ چھ بہن بھائی ہیں جن کی پرورش ان کے والد نے اسی کام سے کی ہے۔
"فالودے کا بڑا گلاس 60 روپے اور چھوٹا گلاس 30 روپے میں فروخت کرتا ہوں جس سے روزانہ کی سیل آٹھ سے 10 ہزار روپے ہے۔”
شعبان بتاتے ہیں کہ فالودے کا کام صرف گرمیوں میں چلتا ہے جبکہ سردیوں میں وہ مٹھائی کا کام کرتے ہیں۔ سردیوں میں مٹھائی کی آمدنی کے بارے میں شعبان کہتے ہیں کہ فالودے کی نسبت مٹھائی میں زیادہ بچت ہوتی ہے۔
محمد اشفاق قادری میلسی شہر ماڈل سٹی کے رہائشی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا پاکستان کے کئی شہروں میں کاروبار کے لیے آنا جانا رہتا ہے۔ بہت سے شہروں میں انہوں نے گرمیوں کی سوغات فالودے کھائے ہیں لیکن میلسی شہر میں فروخت ہونے والے فالودے کا کوئی ثانی نہیں۔
محمد اعجاز بھٹی میلسی کے رہائشی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ گرمیوں میں ان کے گھر میں آنے والے مہمانوں کو وہ میلسی کا مشہور فالودہ ضرور کھلاتے ہیں۔
محمد احمد میلسی کے نواحی علاقے جلہ جیم کے رہائشی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ تقریباً روزانہ میلسی شہر میں حاجی بابا سے فالودہ کھانے کے لیے آتے ہیں اور واپسی پر گھر والوں کے لیے بھی فالودہ لے کر جاتے ہیں جسے ان کے گھر والے شوق سے کھاتے ہیں۔