صحافت

میلسی پریس کلب عیدگاہ روڈ میلسی صدرعزیزاللہ شاہ طاہر , محمد اسلم خان یوسف زئی سید نویدالحسن قطبی ۔میاں عزیزالرحمن ۔کامران ۔میاں محمد جاوید عزیزنظامی ۔متین احمد خان ۔چوہدری عامرمحمود  ۔چوہدری حسن محمود ملانہ ایڈووکیٹ۔ حاجی اعجاز احمد ۔ڈاکٹرعاصم شہزاد ۔سجاد احمد سعیدی  ۔قاری نذیراحمد الہ آبادی 

انسانی معاشرے میں صحافت کے کردار اور اہمیت وضرورت کی جب بات آتی ہے تو اکثر ایسا ہوتاہے کہ اکبر الٰہ آبادی کا درج ذیل شعر دہرایا جاتاہے:
کھینچوں نہ کمانوں کو نہ تلوار نکالو
جب توپ مقابل ہوتو اخبار نکالو
جو لوگ ترقی یافتہ ممالک کے عالم انسانی پر غلبہ واستحکام کی بات کرتے وقت ان کی دفاعی قوت اور بطور خاص ایٹمی قوت پر نظر رکھتے ہیںوہ شاید اس شعرکو اتنی اہمیت نہ دیں تاہم جو لوگ ان کی پروپیگنڈہ کی نفسیات،سیاست اور ہتھکنڈوں سے واقف ہیں اور انہوں نے خاص اس موضوع پر لکھی گئیں بعض مغربی مصنفین کی کتابوں کا مطالعہ کیا ہے وہ ضرور اس شعر کو پراز معنیٰ بتائیں گے۔اور جو اتنا جانتے ہیں وہ یقینی طور سے یہ بھی جانتے ہیں کہ گلوبل ولیج کے نام سے مشہورہماری معاصر دنیا میںپروپیگنڈے کو فتح وشکست کی فیصلہ کن جنگ میں ایک اساسی اور بنیادی قوت کی اہمیت حاصل ہے اور جو اتنا جانتے ہیں وہ اس بات سے بھی انکار نہیں کرسکتے کہ پروپیگنڈے کی سواری صرف اور صرف میڈیا ہے۔پروپیگنڈے کے پلان اور منصوبوں میں جس چیز کے توسط سے رنگ آمیزی کی جاتی ہے وہ یہی ہے۔
٭ جب ہم معاشرے میں صحافت کے کردار اور اہمیت وضرورت پر روشنی ڈال رہے ہوں گے تو ہمیں لامحالہ ہندوستان میں اردوصحافت کے حوالے سے جدو جہدِ آزادی میں اس کے کردار کاجائزہ لینا ہوگا۔ملک کی آزادی کی جدوجہد میں اردو زبان وادب کا اوربطور خاص اردو صحافت کا جو رول رہا ہے وہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ اس سے انکار ممکن نہیں،نظریں تو چرائی جاسکتی ہیں،پہلو بھی بچایا جاسکتاہے تاہم اس صداقت سے بالکلیہ انکار نہیں کیا جا سکتا۔
قلم سے ٹپکنے والی روشنائی اور شہید کے بدن سے ٹپکنے والا لہو ، ان دونوں میں یہ خصوصیت ہے کہ جب ان میں سے کوئی بھی ٹپکتاہے جو جم جاتاہے:
خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا
کم وبیش ڈیڑھ سو سال کے طویل عرصے پر پھیلی ہوئی جدوجہد آزادی ہندوستان کی تاریخ کا ایک روشن باب ہے اور اس میں اردو کا کردار ناقابل فراموش ہے۔ اردو صحافت کے بے باک اور نڈر،علم وعمل کے شیدائی اور فکر وفن کے سرتاج صحافیوں نے اپنے قلم کو بیرونی طاقت کے خلاف جیسے وقف کررکھا تھا۔ ان کے نزدیک صحافت کوئی پیشہ یا محض تفریح طبع بہم پہونچانے کا کوئی ذریعہ نہ تھا،انہوں نے صحافت کو فنکارانہ ہنرمندی کے ساتھ ضرور برتا مگر وہ اسی میں الجھ کر نہ رہ گئے۔وہ فن اور لوازمات فن سے آگے اور بہت آگے تک چلے گئے ،انہوں نے اس سے وہی کام لیا جو کسی زمانے میں شمشیر وسناں اور تیر وتفنگ سے لیا جاتا تھا۔انہوں نے ایک طرف ہندوستانی عوام کی تعلیم وتربیت کی طرف توجہ کی تو دوسری طرف اس کے جذبۂ ایمان کو گرمانے ،اس کے تن من میں آزادی کی تڑپ پیداکرنے اور آپس میں اتحادواتفاق اور باہم بھائی چارے کو فروغ دینے کی پوری کوشش کی۔
انگریز حکومت اس بات کو بہت اچھی طرح سمجھتی تھی اور اردو اخبارات کو اپنے لیے فال بد تصور کرتی تھی۔وہ معاشرے میں ان کے اثرونفوذ اور عمل وکردار کو لے کر ہمیشہ مضطرب رہا کرتی تھی۔اس لیے اس نے ان اخبارات کے خلاف کئی طرح کے اقدامات کیے،نئے نئے قانون بناکر ان کو پابند سلاسل کرنے کی کوشش کی ،اردو ایڈیٹروں کو ہر طر ح سے ڈرایا دھمکایا اور قید وبند کی سزائیں دیں،یہاں تک کہ مولوی محمد باقر کو اسی جرم کی پاداش میں تختۂ دارپر بھی لٹکادیا۔
ہر طرح کی داروگیر کے باوجود اردو صحافیوں کے پائے ثبات میں لغزش پیدا نہ ہوئی ،وہ بلا خوف وتردد تختۂ دار پر چڑھ گئے، سلاخوں کے پیچھے جانے کو تیار ہوگئے مگر اپنے مشن سے سر موانحراف انہیں گوارہ نہ ہوا۔وہ دیوار زنداں سے سر ٹکراتے رہے اور علم وادب کی آب یاری کرتے ہے:
ہے مشق سخن جاری اور چکی کی مشقت بھی
ایک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
انورعلی دہلوی اپنی کتاب ’اردو صحافت‘جو اردو صحافت سمینار میں پڑھے گئے مقالات کا مجموعہ ہے،میں جد وجہد آزادی میںاردو صحافت کی خدمات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’اردو کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوگا اس نے زمانے کے بہت سے نشیب وفراز دیکھے ہیں اس کی تاریخ بہت ہنگامہ خیز رہی ہے۔۱۸۵۷ء سے لے کر۱۹۳۵ء تک ملک گیر پیمانے پر آزادی اورقومی اتحاد کے لیے جدوجہد کا سہرا اردو صحافت ہی کے سر ہے۔اردو کے اخبارات ہی نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔اس ہی کا صحافی اور مدیر مولوی محمد باقر جنگِ آزادی میں شہید ہوا۔ اردو اخبارات ہی کے مالکان اور مدیران سب سے زیادہ سامراج کے ظلم وستم کا نشانہ بنے ۔قید وبند کی صعوبتیں سہیں۔ پریس اور ضمانتیں ضبط ہوئیں لیکن اس سب کے باوجود وہ سنگین سے سنگین حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتے رہے، اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت ہندی کے اخبار برائے نام شائع ہوتے تھے انگریزی کے اکثر اخبار انگریزوں کے حامی اور ہم نوا تھے دوسری زبانوںمیں شائع ہونے والے اخبار اتنے با اثر نہیں تھے لہذا اردو اخبارات اور اردو صحافیوں ہی نے برطانوی سامراج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔انہوں نے سیاسی بیداری اور تحریک آزادی کے ہراول دستے کا کام کیا۔[از۔۔۔ مقدمہ’’ اردو صحافت‘‘مرتبہ: انورعلی دہلوی،صفحہ ۲۰]
اردو کے ترقی پسند شعراء کے سرخیل فیض احمد فیض نے ایک بڑی انقلابی نظم کہی ہے۔اس کا ایک ایک لفظ دل ودماغ میں جسے اترتا چلا جاتا ہے اور جسم وجان میں جوش وولولہ کی ہزاروں جوت جگا دیتاہے:
بول؛ کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول؛ کہ زباں اب تک تیری ہے
فیض احمد فیض کے یہ بول، چاہے انہوں نے جس کے لیے بھی تخلیق کئے ہوں سب سے زیادہ جس برادری پر صادق آتے ہیں اور جسے ان کے اولین اور اصلی مخاطبین ہونے کا استحقاق حاصل ہو ناچاہئے میرے خیال میں وہ صحافتی برادری ہے۔
ہر فرد اور ہر طبقے کے ساتھ مصلحتیں جڑی ہوتی ہیں،ایک عام آدمی سے لے کر وقت کے حاکم تک جو درجہ بدرجہ عربوں افراد اور ہزاروں،لاکھوں برادریاں پائی جاتی ہیں ان میں سے ہر کوئی زندگی کے کسی نہ کسی مقام پر خود کو مجبور پاتاہے۔اور کئی بار شکوہ کنا ں ہوتاہے:
یہ کیسا قانونِ زباں بندی ہے تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
ان کی مجبوریوں کے دراز تر سلسلے میں ایک مجبوری وہ بھی ہے جو حقیقتِ اظہار سے متعلق ہوتی ہے اور حق گوئی وبے باکی سے براہ رست منسلک کی جاسکتی ہے ۔یہ مجبوری کوئی ایسی ویسی مجبوری نہیں بلکہ مجبوریوں کی فہرست میں سرفہرست رکھے جانے کی ہر لحاظ سے حقدار وروادارہے۔تاہم اس آباد گیتی میں ایک شخص اور ایک برادری ایسی ضرور ہے جو کسی بھی طرح کے ’’قانونِ زباں بندی‘‘ کی پابندی اٹھانے کی روادار اور متحمل نہیں ہوسکتی ۔وہ انسان کی اس عمومی مجبوری کے سامنے سرنگوں ہونے کے لئے کبھی خودکو تیار نہیں پاتی اور وہ وہی ہے جسے ہم نے چند سطور قبل ’صحافتی برادری‘ کہا ہے۔
۱۸۵۷ء کے انقلاب کے آغاز پر گورنر جنرل لارڈ کیننگ نے ایک صحافتی قانون نافذ کیا،اسے ’’قانونِ زباں بندی‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتاہے، اس قانون کے مطابق ہر چھاپہ خانے کے لیے لائسنس لینا ضروری قرار دیا گیا اور حکومت کو یہ اختیار مل گیا کہ وہ جس اخبار کو چاہے بند کردے اور جس اخبار پر چاہے سنسر شپ کی پابندی لگادے ۱ ؎مگر صحافت آج بھی زندہ ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ فعال بھی ہے ،اس سے معلوم ہوتاہے کہ اس طرح کا کوئی بھی قانون صحافت کو پابند سلاسل نہیں کرسکتا۔
اگر صحافی کے لب سی دئے گئے یا اس کے منہ میں ایک گھونٹ پانی یا سیال سونا دیکر اس کو نگلنے اوراگلنے کی پابندی لگادی گئی تو دنیا بہت جلد دیکھ لے گی کہ انسانی آبادی میں پوری طرح جنگل راج نافذ ہوچکا ہے۔
صحافی کا مذہب ہے بولنا ۔دنیا خاموش رہ سکتی ہے ،غلاموں کے لب سئے جاسکتے ہیں حاکم وقت مصلحتوں اور مجبوریوں کا لبادہ اوڑھ سکتے ہیں مگر صحافی خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔اس کا کام ہے بولنا اور کھل کر بولنا۔
محمد شاہد حسین لکھتے ہیں:
’’سچ بولنا جہاں صحافی کا مذہب ہونا چاہئے وہیں سچ بولنے کی چھوٹ سرکار کی طرف سے بھی ہونی چاہئے۔اسی چھوٹ کا نام پریس کی آزادی ہے جو دنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں کڑی جدوجہد کے بعد حاصل ہوئی ہے۔شروع شروع میں ان ملکوں کے حکمرانوں نے اس پر زبردست پابندیاں عائد کررکھی تھیں۔ انہوں نے صحافت کے ابتدائی دور میں وہ باتیں ہرگز نہیں چھپنے دیں جن سے ان کے عمل وارادے کی نقاب کشائی ہو۔شاید وہ
بائبل کے اس قول کی صداقت سے واقف تھے کہ ’’سچ تمہیں آزاد اور نڈر بنائے گا‘‘

اللہ تعالیٰ نے انسان کو حیوانی قالب میں تو پیدا کیا ہے، مگر ساتھ ہی اسے عقل و فہم اور فکر و شعور کی وہ صلاحیتیں بھی عطا فرمائی ہیں جو اسے تمام حیوانات سے ممتاز کرتی ہیں۔ عقل و شعور کی یہ صلاحیت ہی انسان کا وہ اصلی شرف ہے جو اسے ایک کمزور جسم کے باوجود کرہ ارض کا حاکم بنادیتی ہے۔ یہی شرف ہے جس کی مدد سے انسان نے پتھروں سے تمدن کو پیدا کیا، بحر و بر کو مسخر کیا، بیماریوں کو شکست دی اور ہر دور میں پیدا ہونے والے اپنے مسائل کو حل کیا۔ یہی عقل و فہم ہے جس کی بنیاد پر ہم ماضی سے سبق سیکھتے ہیں، حال کا تجزیہ کرتے ہیں اور مستقبل کا منصوبہ بناتے ہیں۔ یہی فکری رہنمائی ہماری زندگی کی کامیابی کی ضامن ہے۔
ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی اپنے مسائل کے حل کے لیے درست فکری رہنمائی کا طالب ہوتاہے۔ جو لوگ یہ فکری رہنمائی کریں وہ فلسفی، مفکر، حکیم اور دانشور کہلاتے ہیں اور اجتماعی طور پر انہیں فکری قیادت (Intellectual Leadership) کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر علامہ اقبال برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم فکری قائد تھے۔ انہی کی رہنمائی کو اپنا کر مسلمانوں نے پاکستان کے قیام کی تحریک چلائی اور ہندوستان سے جدا ہوکر اپنی الگ مملکت قائم کی۔
عقل مند شخص کبھی دوغلا نہیں ہوتا۔ رحم دل شخص کبھی پریشان نہیں ہوتا اور بہادر آدمی کبھی خوفزدہ نہیں ہوتا۔ کنفیوشس
ایک فکری قائد وہ ہوتا ہے جو دیکھتا تو وہی ہے جو سب دیکھتے ہیں، مگر بتاتا وہ ہے جو دوسرے نہیں بتا پا رہے ہوتے ہے۔ وہ ایسا اپنے وسیع علم، گہرے مطالعے، کشادہ ذہن، تیز نظر اور بے لاگ تجزیہ کرنے کی خداداد صلاحیت کی بنا پر کرپاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک پاکستان میں جہاں اور کئی شعبوں میں زوال آیا وہیں فکری رہنمائی کرنے والی قیادت اور اس کی رہنمائی کی سطح بھی، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ، گرتی چلی جارہی ہے۔
اس کے بہت سے اسباب ہیں۔ مثلاً علمی جمود، تعصب اور اختلاف رائے کو برداشت نہ کرنے کی روایت وغیرہ۔ تاہم اس صورتحال کا ایک بہت اہم سبب یہ ہے کہ اب قوم کی فکری رہنمائی زیادہ تر وہ لوگ کررہے ہیں جو اصل میں صحافی ہیں۔ صحافی بنیادی طور پر رپورٹر ہوتا ہے جس کی اصل دلچسپی حالات حاضرہ اور خبر میں ہوتی ہے۔ چنانچہ وہ ہمیشہ حال میں جیتا اور فوری واقعات کا نوٹس لیتا ہے۔ اس کے تجزیے کا انحصار اپنے مطالعے سے زیادہ مختلف ذرائع سے سامنے آنے والی معلومات اورخبروں پر ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ ایک دن کا مفکر تو بن سکتا ہے، مگر قوموں کی فکری رہنمائی کے لیے جس گہری نظرا ور بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے، وہ اکثر ایک صحافی میں ناپید ہوتی ہے۔
ایک مفکر خبروں سے جنم لینے والے حال اور ماضی قریب میں نہیں جیتا بلکہ اس کا موضوع ماضی بعید اور مستقبل ہوتا ہے۔ وہ چیزوں کی معلومات سے زیادہ ان کی حقیقت اور نوعیت کو سمجھنے میں دلچسپی لیتا ہے۔ زندگی اور معاشرہ کے اصول اورفرد اور اجتماعیت کی نفسیات کو سمجھنا اس کا اصل میدان ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ایک عام صحافی کے بس کی بات نہیں۔ وہ تو ماضی قریب میں جیتا ہے جبکہ ایک حکیم اور مفکر ماضی بعید کی عطا کردہ حکمت میں جیتا ہے جو اسے مستقبل میں جھانکنے کے قابل بنادیتی ہے۔ یہی ایک صحافی اورمفکر کا بنیادی فرق ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں صحافت کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے صحافی صرف اور صرف سیاست اور سیاستدانوں میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جبکہ دور جدید میں سیاست اجتماعی زندگی کا ایک ضمنی حصہ بن چکی ہے، مگر ہمارا صحافی اسی کو سب کچھ سمجھتا ہے۔ چونکہ سیاست کے میدان میں ہماری ناکامیاں غیر معمولی ہیں، اس لیے وہ انھی ناکامیوں اور مایوسیوں کو قوم تک منتقل کرنے کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔ جوکسی قسم کی رہنمائی نہیں بلکہ سلو پوائزننگ (slow poisoning) کی ایک قسم ہے۔ چنانچہ آپ اخبارات کے کالم نویسوں کو پڑھ لیجیے یا ٹی وی کے تبصرہ نگاروں کو سن لیجیے۔ وہ آپ کو قوم کے کانوں میں مایوسی کا زہر انڈیلتے ہوئے ہی نظر آئیں گے۔
ان حالات میں یہ ضروری ہے کہ لوگ ایک صحافی اور مفکر کا فرق سمجھیں۔ اخبار کا اور اپنا پیٹ بھرنے والے کالم نویسوں اور سیاسی پروگراموں کے تبصرہ نگاروں کی گفتگو سے متاثر ہونے کے بجائے کسی حکیم اور دانشور کو تلاش کریں۔ یہ لوگ کم ہوتے ہیں، لیکن ایک دو اچھے حکیم قوم کا بیڑہ پار لگانے کے لیے بہت ہوتے ہیں۔ خد اکا قانون ہے کہ کسی معاشرے سے ایسے لوگ ختم نہیں ہوتے۔ بات صرف ان سے رہنمائی لینے کی ہے اور یہ ہمارے کرنے کا کام ہے، نہ کہ ان کے کرنے کا۔

[fbcommentssync]