283

جلہ جیم جو مہندی کی کاشت کیلئے مشہور تھا تو مہندی کی کاشت میں کمی کیوں ہوئی؟

میلسی: مہندی کی کاشت میں کمی کیوں ہوئی؟
24 جون 2017 | 6:41 صبح
مرید عباس خاور
جلہ جیم کی مہندی پاکستان کے علاوہ بیرونِ ملک بھی مشہور تھیجلہ جیم کی مہندی پاکستان کے علاوہ بیرونِ ملک بھی مشہور تھی
تحصیل میلسی کی سرزمین مہندی کی کاشت کے حوالے سے پہچانی جاتی تھی۔ سینکڑوں کاشتکاروں کے ساتھ ہزاروں مزدورں کا بھی روزگار وابستہ تھا تاہم اب دس سال سے مہندی کی کاشت نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔تحصیل میلسی میں کاشت ہونے والی مہندی پاکستان کے مختلف شہرں کے علاوہ بیرون ملک جن میں عرب ممالک ترکی، ایران اور چین میں اپنی الگ پہچان رکھتی تھی۔محکمہ زراعت سے ملنے والی معلومات کے مطابق 2005ء سے قبل تحصیل میلسی میں ایک ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر مہندی کی کاشت ہوتی تھی۔تحصیل میلسی میں جلہ جیم، مندن، محبت پور، عمر کھچی، سردار پور جھنڈیر، امیر پور، آرے واہن اور فتح پور میں مہندی کے کھیت ہی کھیت نظر آتے تھے تاہم اب صرف دو سو ایکڑ رقبے سے بھی کم رقبے پر مہندی کی کاشت موجود ہے۔مہندی کے سابق کاشتکار میاں فیض اللہ موضع جلہ جیم کے رہائشی ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مہندی ایک آسان اور نقد آور فصل ہے۔ ایک بار مہندی کاشت کرنے سے کئی سال تک کٹائی حاصل کی جا سکتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ مہندی کی کاشت کے لیے پہلے نرسری لگائی جاتی ہے تقریباً دو ماہ بعد جب پودا منتقلی کے قابل ہو جائے تو اکیلا اکیلا پودا دو، دو فٹ کے فاصلے پر کھیتوں میں لگا دیا جاتا ہے۔ دس سال قبل تک سرگودھا، سندھ اور دیگر شہروں میں موجود فیکڑی مالکان جلہ جیم سے مہندی منگوا کر غلہ منڈی میں فروخت کرتے تاہم اب سرگودھا اور سندھ سے مہندی منگوا کر فروخت کی جاتی ہے۔ ’مہندی کا ایک پودا جب کھیت میں ایک بار اُگ جاتا ہے تو سو سال تک اس پودے سے پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ سال میں تین بار مہندی کی فصل حاصل کی جاتی تھی اور تحصیل میلسی میں مہندی کی پیداوار چالیس من فی ایکڑ ہوتی رہی ہے۔‘میاں فیض اللہ کہتے ہیں کہ 1990ء تک میلسی کے کاشت کار بیس بیس ایکڑ تک مہندی کاشت کرتے تھے لیکن پانی میں کمی ہونے کی وجہ سے زمینداروں نے مہندی کی کاشت چھوڑ کر دیگر فصلیں کاشت کرنا شروع کر دیں۔جلہ جیم کے کاشتکار میاں امجد ارائیں نے بتایا کہ 2000ء تک سرگودھا سندھ اور دیگر شہروں میں موجود فیکڑی مالکان جلہ جیم سے مہندی منگوا کر پیستے اور غلہ منڈی میں فروخت کرتے تھے مگر اب یہاں کے فیکٹری مالکان سرگودھا اور سندھ سے مہندی منگوا کر فروخت کرتے ہیں۔کاشتکار ملک معین خان گنب کا تعلق بھی جلہ جیم سے ہی ہے۔ کہتے ہیں کہ ان سے پہلے انکے آباؤ اجداد بھی مہندی کی کاشت کرتے تھے۔انہوں نے بتایا کہ 1980 میں 27 ایکڑ رقبہ پر مہندی کاشت کی اور 2000ء میں اتنا منافع ملا اور انہوں نے مزید زمین بھی خرید لی۔’دس سال پہلے تک مہندی کی اتنی کاشت موجود تھی کہ لاہور اور سرگودھا کے بڑے بڑے تاجر ان سے مہندی لے کر جاتے تھے اب پانی کی کمی، بجلی کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے مہندی کی کاشت ختم ہو کر رہ گئی ہے۔‘ملک معین کا کہنا ہے کہ میلسی میں مہندی کے جو بڑے کاشت کار موجود تھے وہ سندھ میں دریائی علاقوں کے پاس چلے گئے ہیں جہاں انہوں نے مہندی کی کاشت شروع کر دی ہے جبکہ چھوٹے کاشت کاروں نے یہاں ہی دیگر فصلیں کاشت کرنا شروع کر دیں ہیں۔ڈپٹی ڈسٹرکٹ آفیسر زراعت میلسی محمد یٰسین بتاتے ہیں کہ تحصیل میلسی میں ایک ہزار ایکڑ سے زائد رقبے پر مہندی کی کاشت موجود تھی چونکہ مہندی کی کاشت کے لیے پانی کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے تاہم پانی میں کمی کی وجہ سے آہستہ آہستہ مہندی کی کاشت کم ہو گئی ہے۔انہوں نے بتایا کہ اس وقت جلہ جیم، امیرپور، فتح پور، مندن میں صرف دو سو ایکڑ رقبے پر مہندی کی کاشت موجود ہے۔’کاشتکاروں نے مہندی کی جگہ تمباکو اور کماد کی کاشت شروع کر دی ہے اب وہی لوگ مہندی کاشت کر رہے ہیں جن کے شہروں میں اپنے یونٹ یا چکیاں لگی ہوئی ہیں اور پیکنگ کر کے بڑے شہروں میں بھیجتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ جلہ جیم اور نواحی علاقوں میں موسمی حالات کی شدت نے بھی مہندی کی کاشت میں منفی اثرات ڈالے ہیں تاہم کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نہری پانی بکثرت فراہم کرے اور زرعی آلات فراہم کیے جائیں تو اب بھی کیمیکل سے پاک مہندی کی ثقافت ازسرِنو زندہ کی جا سکتی ہے۔’جب پیداواری لاگت کم اور منافع زیادہ ہو گا تو اس سے نہ صرف کاشتکاروں کا رجحان دوبارہ مہندی کی کاشت کی طرف ہو جائے گا بلکہ کراچی اور فیصل آباد گئے ہوئے ہزاروں مزدور واپس آ جائے گے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں