عدل

جب کسی کا حق مارا جاتاہے تو وہ اپنے دستِ بازوسے حق کی بازیابی کیلئے کوشش کرتا ہے۔خود کو کمزور سمجھنے والا پنچائت کا سہارا لیتا ہے۔
تھانے اور عدالت کی طرف رجوع لوگوں کی تیسری اور ناپسندیدہ ترجیح ہے۔قیام پاکستان کے وقت فدا میں خان در محمد خان کھچی اور شیرمحمد خان کھچی سرگانہ اور دوسرے زمینداروں کے ڈیروں پر پنچائتی عدالتیں قائم ہوتیںتھیں۔پنچائت کے نظام نے سستا اور فوری انصاف دیا یہ نظام اب مقابلتاً کم ہو گیا ہے اور لوگو ں نے عدالت کا دروازہ بھی دیکھ لیا ہے تھانوں میں FIRکااندراج انتہائی مشکل مرحلہ اور عدالت میں انصاف کا حصول ایک طویل اور کٹھن سفر ہے۔کرپشن اور Miscarrige Of Justiceکے خدشات کے باوجود عدالتوں میں مقدمات کی تعداد بڑھ رہی ہے جس سے عدلیہ کی افادیت کا اندازہ ہو تا ہے ۔میلسی میں1970میں سول عدالت کا قیا م عمل میں لایا گیا 1971میں ملک رستم علی پہلا سول جج مقرر ہوا۔1970میںہی سب ڈویثرن قائم ہوا۔1985میں سول ججوں کی تعداددو اور 1989میں تین کر دی گئی نومبر 1994میں میلسی میں سیشن ڈویثرن قائم کیا گیامیلسی تحصیل میں صدر تھانہ میلسی ۔سٹی میلسی ۔تھانہ ٹبہ سلطانپور ۔تھانہ مترو اور تھانہ کرم پور پر مشتمل پانچ تھانے ہیں ۔جمہوری ادوار میں مقتدر سیاستدان دوسری سرکاری محکموں میں مداخلت کے ساتھ ساتھ SHOsکو نیچے لگالیتے ہیں۔
بعض ظاہری سفید پوش پولیس ٹائوٹ کاکردار ادا کرتے ہیں۔زمیندار وں کی مداخلت اور ٹائوٹ ازم کے فروغ کے سبب قانون کا وقار اور عوام کا پولیس پر اعتماد ختم ہو رہاہے ۔پولیس کی کارگردگی کا جائزہ لینے کیلئے قارئین یومیہ اُردو اخبار پڑھ سکتے ہیں ۔
کیپیٹل کرائمز کے لحاظ سے تھانہ مترو ہمیشہ سے سرفہرست رہا ہے میلسی میں مختلف زمانوں میں سول جج بہادر شاہ نے ایمانداری جبکہ مہر محمد عارف سیال اور میا ں شبیر احمد ایڈووکیٹ نے قانو ن میں مہارت کے حوالے سے نام پایا۔